حسیب الحسن ............ خوشاب کا شاعر








حسیب الحسن 27-9-1995 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موجود ضلع خوشاب کی تحصیل نورپور تھل میں پیدا ہوئے . میٹرک تک تعلیم اپنے گاوں (چن) کے ہائی سکول سے حاصل کی اور سول سب انجینئرنگ کا ڈپلومہ خوشاب سے حاصل کیا اور پھر سرگودھا یونیورسٹی سے بی اے کی .... شاعری کاشوق بچپن سے تھا 2016 میں باقاعدہ شعر کہنے شروع کیے اور غزل انکی پسندیدہ ترین صنف ہے .



................................

زہر آلود یہ نوالہ ہے زندگی موت کا تماشہ ہے جس کی تقلید کر رہا ہوں میں شافع _حشر(ص) کا نواسہ ہے صرف غربت زدہ محبت ہی ہم فقیروں کا کل اثاثہ ہے ہیں حوالے تو اور بھی لیکن شاعری معتبر حوالہ ہے کم ہے پڑنے لگی زمیں یارو یعنی قبروں میں پھر اضافہ ہے پہلے تو زخم جل رہا تھا مرا اب نمک سے تو کچھ افاقہ ہے خط تو میں نے جلا دیا تھا مگر اسکا دیمک زدہ لفافہ ہے میرے دیوان کا حقیقت میں بس ترا نام ہی خلاصہ ہے مر گیا کوئی رقص کرتا ہوا اب ہے درگاہ اور لاشہ ہے وصل تو غیر کے لئے ہے "حسن" میری خاطر تو بس دلاسہ ہے .............................................. یوں محبت دل پہ طاری کی گئی جیسا کہ پیوند کاری کی گئی، تھا کٹھن ہنس کر چھپانا ہجر کو پھر بھی کوشش باری باری کی گئی، ماتمی دستہ بنا کر اشک کا خواب میں سینہ فگاری کی گئی، اک حسیں کے واسطے سجدے کیے دین میں بھی دنیا داری کی گئی، سن نہ لے دیوار کوئی اسلئے بات آنکھوں سے ہی ساری کی گئی. .............................................. کم ظرف اپنے آپ سے باہر نکل گیا، دولت ذرا سی ہاتھ میں آنے کی دیر تھی... بے تاب تھا فرات ادھر دوڑنے کو بس، حیدر کے لعل کے ہی بلانے کی دیرتھی... دیوار میرے گھر کی ہے مجھ سے الجھ پڑی، اس مہ جبیں کا نام مٹانے کی دیر تھی... فتوی لگا دیا ترے شاعر پہ کفر کا، خود کو ذرا سا وجد میں لانے کی دیر تھی... جانے کہاں چلا گیا اتنی سی دیر میں، واپس سڑک پہ گاڑی گھمانے کی دیر تھی... بھتہ حرام خور ہیں لینے کو آ گئے ریڑھی فقط گلی میں لگانے کی دیر تھی. .............................................. ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں جا،تجھ کو تخیل سے بری کرنے لگے ہیں ہاں راس نہیں ہم کو محبت کا خزانہ تھک ہار کے ہم سودا گری کرنے لگے ہیں مٹی سے بنایا تھا جو ساحل پہ گھروندہ کچھ بچے اسے بارہ دری کرنے لگے ہیں اُس واسطے لہجے کو بدل ڈالا ہے ہم نے خوشاب کو ہم دیکھ مری کرنے لگے ہیں مدت سے تخیل میں تھی جو مورتی تیری ہم اب کے اسے چھو کے پری کرنے لگے ہیں جو لوگ نہیں جانتے مٹی کی حقیقت وہ لوگ بھی اب کوزہ گری کرنے لگے ہیں قربان "حسن" ایسے فقیروں پہ مرا دل جو پیڑ کے پتوں کو دری کرنے لگے ہیں .............................................. اپنی ہستی کے کمالات سے باہر نکلے وہ اگر میرے خیالات سے باہر نکلے دفن کر رکھے تھے سینے کے کسی کونے میں راز جو تیرے سوالات سے باہر نکلے عشق کھائے گا نہیں یار یہ وعدہ ہے مرا اس سے کہہ دو کہ وہ خدشات سے باہر نکلے، اسکے وعدوں پہ بھی کر لیں گے بھروسہ وہ اگر شہر کوفہ کے مضافات سے باہر نکلے، اس کی آنکھوں نے پکارا تو گنے تک نہ گئے رند کتنے ہی خرابات سے باہر نکلے اور بھی خالی ہیں دنیا میں ٹھکانے لاکھوں اس سے کہہ دو کہ مری ذات سے باہر نکلے .............................................. اسم - شفاف سے عبارت تھا وہ مری سوچ کی طہارت تھا تو گیا ہے تو بجھ گئی آنکھیں تو مری آنکھ کی بصارت تھا آنکھ کھلنے پہ سامنے نہ رہا وہ مرے خواب کی بشارت تھا تجھ پہ حجت تمام کی میں نے تو مری آخری جسارت تھا تجھ سے کچھ مانگنے نہیں آیا میرا مقصد فقط زیارت تھا میرے چہرے پہ دکھ نہیں تھے حسن میرے چہرے پہ تو عبارت تھا .............................................. اک طرف پیار تو اک سمت انا رکھی ہے حسن والوں نے "حسن" کیسی سزا رکھی ہے اسکی یادوں کے گلستاں کو ہرا رکھنا ہے اک ندی آنکھ سے اشکوں کی بہا رکھی ہے روشنی،تیری بھی وقعت ہے ہمارے دم سے ہم اندھیروں نے تری شان بڑھا رکھی ہے مجھ کو ہے علم تو راتوں میں کہاں جاتا ہے آجکل میں نے ستاروں سے بنا رکھی ہے خون_ سادات نے مٹی کو فضیلت بخشی خاک میں بھی مرے مولا نے شفا رکھی ہے اُس کی خواہش ہے اندھیروں میں بھٹکتا ہی رہوں میں دیا لایا ہوں اور اُس نے ہوا رکھی ہے اتنا قاتل بھی نہیں حُسن ترا ہوش میں رہ ان چھچھوروں نے تو بے پرکی اڑا رکھی ہے وصل کے لمحوں کو محصور کیا ہے صاحب میں نے اس بار گھڑی پیچھے گھما رکھی ہے خود مزے سے میں تمھیں سوچ رہا ہوں ہمدم اور بستر پہ فقط نیند سلا رکھی ہے .............................................. رقص کرتی ہوائیں بتاتی ہیں یہ آشیانے کہیں اور لے جاؤ تم، زرد پیڑوں کی یہ سرسراہٹ نہیں یہ خزاؤں کا بجتا ہوا ساز ہے تم کو کہتے ہیں دیوانہ بستی میں سب،اب یہ الزام اتنا بڑا تو نہیں، تم ابھی ہی محبت سے بیزار ہو یہ تو رسوائی کا صرف آغاز ہے میں لڑاکا نہیں ہوں غلط مت سمجھ،اچھا خاصہ میں سلجھا ہوا شخص ہوں، جو مری جان ہو اس سے لڑتا ہوں میں،یہ مرے پیار کا ایک انداز ہے لوگ کہتے رہیں تجھ پہ غزلیں مگر،تیری تعریف ان کے ہے بس میں کہاں، صرف میں ہی کروں گا مکمل بیاں،تیرے شاعر کو خود پر بڑا ناز ہے سوچتے ہیں کدھر جائیں کس سے ملیں زندگی خودکشی دونوں ہیں منتظر، اک طرف ہے "حسن" سانولی سی کشش اک طرف ریل گاڑی کی آواز ہے .............................................. مفلسی میں بھی محبت کو غنیمت جانا ہم نے ہر طور عبادت کو غنیمت جانا مجھکو عجلت تھی کہانی سے نکل جانے کی خود کشی جیسی حماقت کو غنیمت جانا عین ممکن ہے کہ اظہار پہ وہ چھوڑ ہی دے ہم نے خاموش محبت کو غنیمت جانا سازشی قتل سے بہتر تھا کہ لڑ کر مرتے ہم نے لشکر سے بغاوت کو غنیمت جانا دے بھی کیا سکتے ہیں اب لوگ سوائے اس کے ہم نے در پردہ حقارت کو غنیمت جانا میں ترے ہجر میں کچھ اور تو کر پایا نہیں بس ترے ہجر میں وحشت کو غنیمت جانا بھیک مانگی نہ گئی ہم سے محبت کی حسن گھٹ کے مرنے کی اذیت کو غنیمت جانا ..............................................

Comments