نئی نسل کا پختہ ترین شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔ دلاور علی آذر ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر کاشف رفیق



              دلاور علی آزر نے چھوٹی عمر میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ اس کی شاعری کونامور سینئر شعراء کے ساتھ رکھنے میں مجھے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ۔ظفر اقبال سے لے کر ڈاکٹر سید صغیر صفی تک تمام نمایاں نقاد اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔خاص و عام میں اس کی پزیرائی پبلک ریلیشننگ اوراس کی نفیس شخصیت کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ اس مقبولیت کا بجا طور پر حق دار ہے۔دلاور علی آزر کی شاعری کی خاص بات جو اُسے اپنے ہم عصر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ اُس کے ہاں کمزور مصرعے،نا پختہ خیال،اور فنی عیوب و نقائص نہیں ملتے۔اُس کا لہجہ منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ توانا بھی ہے۔اب تک اس کے دو شعری مجموعے ’’پانی‘‘ اور ’’ماخذ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اور شاید ہی کسی نوجوان شاعر کے ابتدائی مجموعے اس قدر پختہ اور توانا ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ ادبی گروپ بندیوں کے  باوجود کوئی بھی جینون شاعر اس کی تخلیقی صلاحیت اور کامیابی سے انکار نہیں کر سکا۔دلاور علی آزر کا تعلق حسن ابدال سے ہے اور یقینی طور پر وہ گندھارا تہذیب  کے طلسماتی اور کرشما تی حسن سے متاثر ہوا ہو گا ۔اس کا تخلص آزر اسی بات کا عکاس ہے۔آج کل وہ کراچی میں مقیم ہے اور ادب کے قارئین کے دلوں میں کشمیر سے لے کر کینیڈا،پشاور سے لے کر کراچی ہر جگہ اپنا مقام بنا چکا ہے۔
                                                دلاور کو پڑھتے ہوئے بعض اوقات میں کلاسیکی عہد میں چلا جاتا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دلاور کی شعری تربیت ذوق،ٖغالب یا داغ نے کی ہے اور وہ اُن کے درمیان اُٹھتا بیٹھتا ہے یا شاید وہ قیامِ پاکستان سے قبل لکھنو کی کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔

دل سزاوار ہوا ساعتِ غفلت کے تئیں!
ایک تو عشق کیا دوسرا  نادانی کی

جنبشِ لب سے انھیں راہ دکھائی آزرؔ
میں نے تا عمر فرشتوں کی نگہبانی کی
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
آزرؔ وہ آئے پرسشِ احوال کے لیے
مجھ سے بیان حالتِ حالِ زبوں نہ ہو
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
                میں کوئی نقاد یا اُردو ادب کا اُستاد تو نہیں ہوں کہ دلاور علی آزر جیسے پختہ شاعر کے فن کا تجزیہ کر سکوں۔دلاور علی آزر نے جب اپنے دونوں  شعری مجموعے  مجھے عنایت کیے تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پڑھنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کروں۔دونوں مجموعوں کا تفصیلی مطالعہ کر نے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ دلاور علی آزر کی شاعری پر دو تین لائنوں میں رائے نہیں دی جاسکتی ۔بلکہ یہ ایک مفصل مضمون کی متقاضی ہے۔دلاور خود بھی اپنی تخلیقی خوبیوںکا احساس رکھتا ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔

یاقوت جڑے اور کہیں الماس اُتارے
وہ لفظ جو ہم نے سرِ قرطاس اُتارے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
                        دلاور علی آزر بنیادی طور پر غزل گو ہے۔اسی لیے غزلیہ رنگ ہی میں اُس نے بہت خوبصورت نعتیں کہی ہیں۔کچھ نعتیہ اشعار دیکھیے۔


خواہش ِخواب دیدہ اُن کے حضور
سب سے پہلا قصیدہ اُن کے حضور
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
میں آ گیا ہوں آپ کے در پر بصد خلوص
اب اپنے آپ سے کوئی خطرہ نہیں مجھے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .


                       دلاور علی آزر کی شاعری اُس کے ذہن و دل پر چھائی ہوئی حیرانی، پُر اسراریت اور دیکھے، ان دیکھے،خوابوں میں بسے جہانوں کی جستجو کا بیان ہے۔

زمیں سے کوئی تعلق نہ آسمان سے ہے
مرا خمیر کسی تیسرے جہان سے ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
درونِ خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے
میں دیکھ رہا ہوں حدِ بینائی سے آگے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
            دلاور علی آزر نے  اپنی غزل کی عمارت پامال زمینوں پر کھڑی نہیں کی۔اُسے اچھی طرح احساس ہے کہ ایسی زمینوں پر کھڑی عمارت تا دیر قائم نہیں رہ سکتی۔اور شاعر اپنی انفرادی پہچان بھی کھو دیتا ہے۔اس لیے اُس نے بہت ساری نئی زمینیں تراشی ہیں اور اُن میں کمال اشعار کہے ہیں۔طاق،چراغ، آئنہ،پانی،خواب اس کے محبوب استعارے ہیں۔ساتھ ہی اُس کے ہاں تلمیحات بھی دلکش صورت میں موجود ہیں۔
کارگر ہے آئینہ،آئنے میں پانی ہے
چشم پر ہے آئینہ ،آئنے میں پانی ہے

آزر اس سے پہلے تو آئنہ تھا پانی میں
اب اگر ہے آئینہ،آئنے میں پانی ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
عجیب خواب تھا اُس جھیل کے کنارے پر
دمِ طلوع مجھے چاند ملنے آتا تھا
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
اندھیرا نام کی کوئی بھی شے نہیں ہے یہاں
کہیں چراغ کا سایہ کہیں چراغ کی لو
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
ایسی وحشت ہے کہ سائے سے گریزاں ہوا میں
روشنی مجھ سے بغل گیر چراغوں کی نہ ہو
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .

   رومانویت کسی بھی اچھے شاعر کی شاعری کا جزوِ لازم ہے اور دلاور کے ہاں بھی محبت کا جذبہ و احساس اور اس سے وابستہ کرب و الم موجود ہے مگر اس کا رنگ ڈھنگ عمومی انداز سے قطعی مختلف ہے۔

کس طرح تری یاد کو سینے سے نکالوں
کس طرح کوئی جسم سے اب ماس اُتارے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
اتفاقا  اُس سے جا ملتا ہوں میں
اور وہ مجھ سے ملاتا ہے مجھے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے اُنھیں دیکھنا نہیں آتا
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
کن الفاظ میں لکھوں میں اُس حسن کی حالت کا احوال
اُس کی آنکھیں آنکھیں تھیں اور اُس کے ابرو ابرو تھے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
گھر میں گلدان سجائے ہیں تری آمد پر
اور اک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
رنگ پوروں سے مرے خوں میں اُتر آیا ہے
پھول کو ہاتھ لگا بیٹھا ہوں نادانی میں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
سُن کر ان سنگیت بھرے جھرنوں کی بہتی آوازیں
میرے اندر کی خاموشی باہر آنے والی ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
درمیاں عشق کا پردہ جو نہ حائل ہوتا
میرے ہونٹوں کے مقابل تری پیشانی تھی
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
  دلاور علی آزر کی غزل میں کلاسیکی غزل کی تمام  خصوصیات موجود ہیں۔جن میں رومانویت، جمالیات،موسیقیت ،منظر نگاری، حقیقت نگاری، نکتہ آفرینی اورنازک خیالی موجود ہیں۔وہ با رہا اپنے اشعار میں میر اور غالب کا نام لیتا ہے۔سو وہ ان کی شعری امانت کو سنبھالے ہوئے ہے۔ایسے دور میں جہاں جدت کے نام پر غزل کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے دلاور علی آزر جیسے شعراء ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔

وبالِ صورتِ اشیا بھی کچھ دماغ میں ہے
کھلے نہ آپ پہ ایسا بھی کچھ دماغ میں ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
ایسی ہوا چلی ہے چمن میں کہ آج کل
پتوں کا رنگ زرد، گلِ تر پہ خاک ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
               روایت کا امین ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دلاور عصرِ حاضر  کے تقاضوںسے بے خبر  ہے۔ جدت کا راگ الاپنے والے ذرا کلاسیکی انداز میں عصرِ حاضر سے ہم آہنگ دلاور کے اشعار تو دیکھیں۔  


اُٹھا کے ہاتھ پہ دنیا کو دیکھ سکتا ہوں
سبھی نظارے بس اک تھال میں پڑے ہوئے ہیں

تمام عکس مری دسترس میں ہیں آزرؔ
یہ آئنے مری تمثال میں پڑے ہوئے ہیں

   بات  دلاور کی اُن غزلوں کی ہو جائے جن کے  پاک و ہند میں چرچے ہیں۔میں یقین سے کہتا ہوں اگر ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تو مغرب میں ان پر بہت تحقیقی کام کیا جائے گا۔ان غزلوں میں جلال بھی ہے جمال بھی، فکر بھی ہے اور جذبہ بھی زور بھی ہے اور نزاکت بھی۔یہ غزلیں انتہائی  پر اثر اور  فلسفے سے پر ہیں ۔گویا ایک ساتھ دل و دماغ کو شکار کرتی ہیں۔ان غزلوں میں سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے۔


ورنہ رکنا تھی کہاں باغ میں یلغار مری
وہ تو مس ہو گئی اک شاخ سے تلوار مری

کاش وہ ساعتِ صد رنگ پلٹ کر آجائے
پیاس چمکی تھی تری آنکھ میں اک بار مری
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
یوں دیدہء خوں بار کے منظر سے اُٹھا میں
طوفان اٹھا مجھ میں سمندر سے اُٹھا میں

اُٹھنے کے لیے قصد کیا میں نے بلا کا
اب لوگ یہ کہتے ہیں مقدر سے اُٹھا میں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
خود میں کھلتے ہوئے منظر سے نمودار ہوا
وہ جزیرہ جو سمندر سے نمودار ہوا

میری تنہائی نے پیدا کیے سائے گھر میں
کوئی دیوار کوئی در سے نمودار ہوا
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
یہ اک فقیر کا حجرہ ہے آ کے چلتے بنو
پڑی ہے طاق پہ دنیا  اُٹھا کے چلتے بنو

نہیں ہے فائدہ اب کوئی سینہ کوبی کا
میں تم سے اس لیے روٹھا ہوں تاکہ چلتے بنو

  مندرجہ بالا اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ دلاور علی آزر فنی اور فکری اعتبار سے کس قدر پختہ شاعر ہے۔اس کے تخیل میں سمندر جیسی گہرائی اور دریا جیسی روانی ہے۔وہ زود گو ضرور ہے مگر معیار پر بالکل بھی سمجھوتہ کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔پانی اور ماخذ اس کی دن رات کی ریاضت  کا نتیجہ ہیں ۔اور بلا شبہ معاصر ادب میںانتہائی اہمیت کی حامل کتب ہیں۔دونوں کتب میں شامل تمام اشعار اس قدر اچھے ہیں کہ ان میں سے انتخاب کرنا  نا ممکن  کے قریب ہے۔مثالوں کے لیے میں نے کچھ اشعار اوپر درج کیے ہیں اور میرے باقی پسندیدہ اشعار میں سے مشت از خروارے کے طور پرکچھ مزید اشعارحاضرِ خدمت ہیں۔

زمیں پھسلتی رہی،آسماں پگھلتا رہا
میں ایک خواب کی انگلی پکڑ کے چلتا رہا
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
سائے میںجسم ڈھل گئے،آسیب جل گئے
اندر کا خوف مر گیا باہر کے خوف سے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
میں نے اک رات کی رعایت سے
اپنی مرضی کا دن بنا لیا ہے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
کون جھانکے گا مری روح کی گہرائی میں
کون دیکھے گا مرے جسم میں کیا ٹوٹتا ہے

.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
اپنی تعظیم لازمی ہے مجھے
دفن ہیں میرے رفتگاں مجھ میں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
ہمارے بعد دھواں ہو گا آسماں آزرؔ
ہم آہ بھرتی ہوئی رات کے ستارے ہیں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
نظر کے سامنے بجھتا ہوا وہ شعلہئِ شوق
پلک جھپک کے جو دیکھا،دوبارہ روشن تھا
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
اس سے پہلے کہ فرشتہ کوئی طعنہ دیتا
اک ستارہ اُبھر آیا مری پیشانی سے
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
تمام روشنی سورج سے مستعار نہیں
کہیں کہیں تو ہمارے چراغ جلتے ہیں
.  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
 
اللہ تعالیٰ اس کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔اور ہم اس کے اچھے اشعار کا یوں ہی حظ اُٹھاتے رہیں۔آمین


        ڈاکٹر کاشف رفیق
            سعودی عرب
            ۲۰ مارچ ۲۰۱۷
                                                                                 







                                  


Comments