اُسامہ امیر کراچی کے ابُھرتے ہُوئے شعرا میں ایک قابلِ توجہ نوجوان شاعر ہیں آپ کا مکمل نام محمد اُسامہ امیر ہے جو 6 اپریل 1998 کوکراچی میں پیدا ہُوئے آپ کے والدِ محترم کا نامِ نامی اِسم گرامی امیر محمد ہے جن کے اجداد اکبر آباد سے ہجرت کرکے روشنیوں کے شہر میں آ بسے تھے اُسامہ امیر کا اُسلوب سادہ و پرکاری کی بُنیاد پر سر اٹھاتے ہُوئے لہجے اُور زبان کے روزمرہ استعمال سے کمک لے کر صفحہء قرطاس پر نئے نئے پھول کھلاتا ہُوا اپنے قاری کے دل میں گھر کرتا محسوس ہُوتا ہے اُور ہم اُن کی شاعرانہ پیرایہء بیان سے مُتاثر ہُوئے بغیر نہیں رہ سکتے آئیے اُن کی شاعری سے ملتے اُور لطف اُٹھاتے ہیں۔
آرب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ پہ گزرا ہے مخمصے کا ہجر
خامشی میں بھی بولنے کا ہجر
تم اذّیت کو میری کیا جانو
میں نے جھیلا یے آئینے کا ہجر
مجھ پہ اترا ہوا عجب یہ ہے
آسماں سے کہیں پرے کا ہجر
دوستو! اب تو باز آ جاؤ
ایک کے بعد دوسرے کا ہجر
..................................
لمحہء خوش گوار پیدا کر
گفت گو میں نکھار پیدا کر
میرے جیسے ہی ہم خیال یہاں
میرے پروردگار پیدا کر
اک نیا رنگ دے سمندر کو
اک نئی آب شار پیدا کر
منزلوں سے نہ مانگ مہلت تو
راستوں سے غبار پیدا کر
خار سے تو بنا کوئی غنچہ
یا کہ غنچے سے خار پیدا کر
..................................
آئینے تصور میں لئے حد سے گزر جا
دیوار پہ بنتے ہوئے چہروں سے مکر جا
قوسین بنائے ہوئے بیٹھا ہوں میں کب سے
تصویر مکمل ہے تری اس میں اتر جا
..................................
کسی کی یاد کا سینے سے سم نکالتے ہیں
ہم اپنی سانس بھی اس وقت کم نکالتے ہیں
نہ پوچھ کیسے اذیت میں رات کٹتی ہے
جب اپنی آنکھ کے ہم اشکِ غم نکالتے ہیں
سفر میں دھوپ کی شدت بھی کیا کرے ان کا
مکانِ دل سے جو سایا بہم نکالتے ہیں
ہمیشہ چادرِ افلاک چھوٹی پڑتی ہے
جب اپنی ذات سے باہر قدم نکالتے ہیں
وہ بار بار نظر سے اتارتی ہے نظر
ہم اپنی جان کا صدقہ بھی کم نکالتے ہیں
کسی کی یاد میں مصرے اترتے ہیں جب جب
تو اپنی جیب سے کاغذ، قلم نکالتے ہیں
جدید شعر پرانی زمین ، قافیے سے
وہ کوئی اور نہیں صرف ہم نکالتے ہیں
خدا بھی ساتھ ہی رہتا ہے خانہ دل میں
تو لوگ کعبے سے کیونکر صنم نکالتے ہیں
یہ خاندانِ اسامہ کی پرورش ہے امیر
ہمارے بچے بھی گھر سے علم نکالتے ہیں
..................................
اندر باہر ایک سا موسم، ایک سی وحشت طاری ہے
تازہ تازہ شعر ہوئے ہیں، سرشاری سرشاری ہے
دن نکلا ہے بستر چھوڑو اپنے کام پہ چل نکلو
سورج نے کپڑے بدلے ہیں میلی رات اتاری ہے
اس کو رخصت کرتے لمحے، اس کی ماں نے یہ بولا.......
بیٹا! اس کو خوش رکھنا تم میری راج دلاری ہے
اپنی گاڑی ہو تو بندہ عیش سے آئے جائے بھی
دشت میں پیدل چل کر دیکھا چلنے میں دشواری ہے
پل میں تولہ، پل میں ماشہ، پل میں سیاہ و سپید
تیری نیّت پہ شک سا ہے، کیونکہ تو سرکاری ہے
..................................
مجھ سے دل یہ سوال کرتا تھا
تیری آنکھوں میں کس کا چہرہ تھا
خواب کیا کیا دکھا گیا مجھ کو
ہائے وہ شخص کون تھا کیا تھا
آؤں گی خواب میں تمھارے میں
اس نے کیسا یہ جھوٹ بولا تھا
میں گماں ہر یقین کر بیٹھا
واہمہ تھا یا کوئی دھوکا تھا
دھوپ میں، میں پگھل نہ جاؤں کہیں
اپنے کمرے سے کم نکلتا تھا
شام کے سرمئی اندھیروں میں
ساتھ سایہ بھی چھوڑ بیٹھا تھا
..................................
ہر ایک شخص سے ملنا ملانا آتا ہے
کسی کسی کو تعلق نبھانا آتا ہے
گھرا ہوا ہوں میں آجامِ بد حواسی میں
کہ مجھ کو کیفیتِ وحشاتانہ آتا ہے
کسی کا عکس کسی عکس کے تبادلے میں
کمالِ بے ہنری سے بنانا آتا ہے
یہ ایک رمز ہے ساتوں سروں کی حد سے پرے
خموش رہتے ہوئے گنگنانا آتا ہے
یہ سوچتے ہوئے اعصاب شل ہوئے میرے
کہاں سے؟ کس کے لئے آب و دانہ آتا ہے
Comments
Post a Comment