نعیم رضا بھٹی اردو شاعری کے تازہ دم اور معتبر شاعروں میں سے ہیں۔ اُنھوں نے مختصر مدت میں اپنی فکری ندرت اور فنی جودت کی بدولت اُس مقام تک رسائی پائی ہے جو قابلِ فخر بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔ اپنے ہم عصر شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف نمایاں و ممتاز ہے بلکہ بہ آسانی آگے نکلتی اور اپنے اوج کے نئے زاویے ترتیب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ نعیم رضا بھٹی کی سب سے بھلی بات اور پہلے ذکر کیے جانے کے لائق خوبی‘ اُن کی شاعری میں گہرے تجربے اور احساس کی وہ فراواں حدّت ہے جو یک بیک قاری کو اُچک لیتی ہے۔ بالکل جیسے کوئی سحر پھونکے۔۔۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے اِس کا لفظ لفظ مسلسل حسی ادراک سے جُڑا ہوا اور ذات کی داخلی ریاضتوں میں پگھلایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھت آغاز ہی سے گھیرا ڈالنے لگتی ہے اور جوں جوں یہ عمل آگے بڑھتا ہے، محویّت کا اَن دیکھا حصار تنتا چلا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے منظر بتدریج اُترتے ہیں اور تصویر بننے لگتی ہے۔ یہ بالکل مصوّری کی طرح کا عمل ہے جیسے ماہر مصور کا ہر سٹروک تصویر کی ایک نئی جہت تخلیق کرتا ہے اور رنگوں کے امتزاج اور زاویوں کے جڑاؤ سے ایک شبیہ واضح ہوتی چلی جاتی ہے، اِسی طرح کا عمل نعیم رضا بھٹی کی شاعری میں بھی ہوا ہے۔ یہاں لفظوں کے برش سے منظر پینٹ کیے گئے ہیں۔
ہم ایسے لوگ جنہیں حبس بھی سہولت ہے
وہ خود پہ رحم جو کر لیں تو کیا قباحت ہے
بدن کی خستگی کہتی رہی مکیں سے کہ آپ
حدوں کو پار نہ کیجے یہی روایت ہے
ہم اپنے خواب اگر اس پہ وار دیتے ہیں
تو اس کا یہ نہیں مطلب وہ خوبصورت ہے
ہزار بار ہمیں وہ سلگ کے ملتا رہے
وہ جانتا ہے ہمیں کس قدر محبت ہے
میں اس کی آگ میں جلتا ہوں میری آگ میں وہ
لہو کا جزیہ اسی طرز کی طریقت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک نشیں تھے مگر رائیگاں ابھر آئے
جبین ِخاک پہ بے خانماں ابھر آئے
ہماری اتنی کہانی ہے سن سکو تو سنو،
جہاں نہیں تھی ضرورت وہاں ابھر آئے
کبھی تمہارے لیے خود کر دیا معدوم،
کبھی تمہارے لیے بے کراں ابھر آئے
میں بے دلی سے بہے جا رہا تھا اپنی طرف
کسی کی سانس کے پھر بادباں ابھر آئے
الاؤ بجھنے لگا تو چراغ جلنے لگے
تھکن کے نقش سر داستاں ابھر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گمرہی زیر و بم نہیں رکھتی
اس لیے آنکھ نم نہیں رکھتی
پاؤں محکم پڑیں تو لگتا ہے
خاک نقشِ قدم نہیں رکھتی
کیسے منزل پہ ہو سکے گی تمام
جو سڑک پیچ و خم نہیں رکھتی
لطف لیتی ہے ہر مصیبت کا
زندگانی بھرم نہیں رکھتی
ربط راسخ ہے بے یقینی سے
بے سبب محترم نہیں رکھتی
آنکھ ویرانیوں میں رہتی ہے
ورنہ یہ اشک کم نہیں رکھتی
تجربے نے ہمیں بتایا ہے
کوئی لڑکی بھرم نہیں رکھتی
آگ لگ جائے اس محبت کو
جو کہ تاثیرِسم نہیں رکھتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربتیں جو مٹا کے لوٹ گیا
مجھ کو مجھ سے ہٹا کے لوٹ گیا
رات بھر مجھ سے ربط غم رکھا
صبح دم سٹپٹا کے لوٹ گیا
جس سے وعدہ تھا زندگی بھر کا
چند جملے رٹا کے لوٹ گیا
اس کو سونپی گئی تھی سرداری
اور وہ سر کٹا کے لوٹ گیا
آج تک بج رہا ہے دروازہ
خواب تو کھٹکھٹا کے لوٹ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کو خاطر میں نہ لاتا تھا پسندیدہ ہوا
میں مسلماں کس بت کافر کا گرویدہ ہوا
شوق پھر سے چومتا ہے قریہء پر نور کو
اور وہ حسن مکمل ہے کہ شش دیدہ ہوا
سونپ کر میں دیدہء تر کو سبھی بار سخن
ہو گیا گرچہ ‛ مگر میں خاک رنجیدہ ہوا
اک مسلسل مرگ طاری تھا مرے اشغال پر
میں ترے لمسِ کرم سے نیم خوابیدہ ہوا
یانبی اک بار ہو مجھ پر بھی اب نظر کرم
پھیر لیجے گا نظر گر میں نہ سنجیدہ ہوا
ہر کوئی کوشش میں ہے کہ توڑ لے تجھ کو رضا
تو غزل کے باغ کا جب سے گلِ چیدہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment