دشت در دشت سر گرداں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاہد فیروز



محمد شاہد فیروز گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے شاعری کا باقاعدہ آغاز کالج لائف سے کیا 2016 میں ایم اے اردو کیا ان کا پہلا شعری مجموعہ ،،میں ہلکان سمندر،، کے نام سے ستمبر 2015 میں منصۂ شہود پر آیا ۔
 نظموں کی کتاب "شور رہ جائے گا " کے عنوان سے کمپوزنگ کے مراحل میں ہے


شاہد فیروز کے اندر کچھ کر گزرنے، کچھ کر ڈالنے کی جو خواہش اور اضطراب ہے اسے خوب جانتا ہوں۔یہ تجسس یہاضطراب اور یہ  خواہش شاہد فیروز کو دشت در دشت سر گرداں اور سمندر در سمندر ہلکان کرتی ہے۔نظم اور غزل اِس کے دو قابلِ ذکر پڑاؤ ہیں اور ہر چند یہ کہ شاہد فیروز کا میدان اور میلان اکثر نظم کی طرف محسوس ہوتا ہے۔مگر غزالِ غزل کی خوبصورتی ہمیشہ اسے شکار یا اسیر کرنے کی جوت دل میں جگائے رکھتی ہے اور اس کے تعاقب میں بے تاب رہتی ہے۔اس طرح کہ مسافر جب پلٹ کر دیکھتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ وہ زخمی ہرن کے تعاقب میں کتنی اقلیتیں پار کر آیا ہے مگر یہ مسافت پہلے کبھی کسی سے طے ہوئی ہے جو اب ہوگی؟اس میں تو بس اپنے نقشِ پا چھوڑ دینا ہی ممکن ہےاور  وہ بھی کسی کے لیئے۔

سعود عثمانی


پھر کسی فکر کی بارش میں گماں بھیگیں گے

پھر کوئی روگ ستائے گا تو ہم ہنس دیں گے
خود پرستوں کی طبیعت سے بہت واقف ہوں 
میں انہیں رد کروں گا تو مجھے سوچیں گے
مجھ کو درکار نہیں ایسی کوئی بھی راحت
مرے احساس دلانے پہ اگر بخشیں گے
میں سہولت سے نہیں دھیان میں آنے والا
راہِ دشوار کو وہ ایسے کہاں سمجھیں گے
یہ شروعات کے لمحے تو میں جی بھر جی لوں
کون سا ساتھ کہاں تک ہے کبھی دیکھیں گے
یہ جو منظر ہے ابھی شور میں ڈھل جائے گا
یه جو چپ چاپ پڑے ہیں یہ سبھی بولیں گے
ایک بس اس کے بھروسے پہ ہے سانسوں کا جواز
ہم اگر خواب نہ دیکھیں گے تو کیا دیکھیں گے
یہ جو خوشبو سی نکلتی ہے ترے لہجے سے
ترے افکار سے اک روز چمن مہکیں گے
مجھ سے کہتےہیں وہ شاہد ہو کہ ہو اس کا خیال
عمر بھر کیسے بھلا دل سے لگا رکھیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنی دیر نگہبانی کی
اجڑےشہر کی ویرانی کی
دیکھ نہیں ہے کوئی نسبت
مجھ سے،اس پیاسے پانی کی
مٹی کے بھی مول نہیں ہم
حالت یہ ہے ارزانی کی
رستے سایہ دار بناؤ
صورت نکلے آ سانی کی
اس دن سورج مر جائے گا
آپ نےجس دن بے دھیانی کی
دیکھ شکاری کھوج میں نکلے
جینز پہن کر ارمانی کی
اک دوجے کو خوف سے ڈھونڈیں
منطق خوب ہے ویرانی کی
اس چنچل کی شوخ ادا نے
آ نکھ کسی کی مستانی کی
ذکر کسی کے خال و خد کا
یہ تمہید ہے عریانی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تسلسل سے کھائے ہیں دھوکے
آنکھ بھی تھک چکی ہے رو رو کے
وہ کسی اور در کا ہوتا ہے
جانے والے کو کوئی کیا روکے
اک حسیں خواب کی تمنا میں
دن بھی سارا گزر گیا سو کے
وہ جہاں کوئی کچھ نہیں رہتا
میں وہاں سے بھی آگیا ہو کے
ڈھونڈنے والے ڈھونڈ لیتے ہیں
ہاں مگر میں نہیں ملا کھو کے
بھوک رکھتی نہیں ہے کوئی کشش
رقص کے نام نوٹ سو سو کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزار حسرتیں جب آنکھ میں دھرے آئیں
سفر میں ایسے میں منظر کہاں ہرے آئیں
صدائے زندگی سننے اسے سمجھنے کو
ذرا سا وقت کی ترتیب سے پرے آئیں
ہم ایسے خوف کے مارے ہیں اس خرابے میں
ہمیں تو خواب بھی خدشات سے بھرے آئیں
ہزار شکر کہ دیکھا نہیں درِ رغبت
جو دیکھ آئے ہیں وہ دیکھئے مرے آئیں
یہ دل ہے آپ کا ہی منتظر زمانوں سے
تکلفات کی کیا بات ہے ارے آئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب چنتی ہیں رنج سہتی ہیں
میری آنکھیں کثیر جہتی ہیں
زُوم کر کر کے میں نے دیکھا ہے
دوریاں دوریاں ہی رہتی ہیں
کتنے ہجروں کا آنکھ مخزن ہے
کتنی ندیاں یہیں سے بہتی ہیں
اتنی صدیوں سے میں نہیں بدلا
ہاں یہ صدیاں بدلتی رہتی ہیں
تیری وحشت کا ہے ہنر شاہد !
کرچیاں آئنے کی کہتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوب ہنسنے کا اور ہنسانے کا
اب ترا غم ہوں یوں منانے کا
آج کی شب ہے حسن زدگاں کی 
آج پردہ نہیں گرانے کا
وقت مل جائے تو غنیمت ہے
شعر کہنے کا اور سنانے کا
ایک دو روز کی اذیت ہے
ہجر پاگل نہیں بنانے کا
خوف نیندیں اُجاڑ دیتا ہے
میں اسے گھر نہیں دکھانے کا
آپ کے دھیان کے گلستاں میں
کیا طریقہ ہے آنے جانے کا
پھر نئے عشق کی ضرورت ہے
یعنی پھر گل نیا کھلانے کا
لیلتہ الوصل ہے عزادارو
آج کی شب نہیں رُلانے کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانس لینے کی مشقت جو اُٹھا سکتا ہوں
مری دنیا تجھے پھر کیسے گرا سکتا ہوں
میری وحشت سے مرے لوگ بہت واقف ہیں
شہر میں دشت کا ماحول بنا سکتا ہوں
میں تخیّل کو سراپے میں بدلنے والا
خواب کو نیند سے باہر بھی دکھا سکتا ہوں
یہ جو صورت ہے مری صورتِ حالات نہیں
ایسی صورت تو میں جب چاہوں بنا سکتا ہوں
میں نے جادو کی چھڑی کا نہیں کرتب سیکھا
شعر کہتا ہوں فقط شعر سنا سکتا ہوں
یہ تو بس اپنی عقیدت کا لحاظ آتا ہے
ورنہ درپردہ ہے کیا سب کو بتا سکتا ہوں
جن کے بل پر تو مجھے چھوڑ چلا ہے اےدوست
ان دلائل کو میں چٹکی میں اڑا سکتا ہوں
بے یقینی کے کمالات میں اِک یہ بھی ہے
میں ترا ہجر ترے ساتھ منا سکتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحن میں رکھا گیا دالان میں رکھا گیا
میں کبھی بکھرے ہوئے سامان میں رکھا گیا
بولتا کچھ بھی نہیں اور سوچتا کچھ بھی نہیں
کون سا پتھر ترے دربان میں رکھا گیا
مجھ کو میرے ہونے کا یونہی نہیں رستہ ملا
ابتری بخشی گئی گھمسان یں رکھا گیا
جس جگہ پھولوں کی کچھ اولاد دفنائی گئی
رزق خوشبو کا اسی گل دان میں رکھا گیا
میں کہ سرگرداں رہا ہوں لذتوں کے شوق میں
ہر گھڑی مجھ کو کسی ہیجان میں رکھا گیا
یہ ہمارے واسطے بس اس قدر دلکش رہی
زندگی کو جس قدر پہچان میں رکھا گیا
رنجشوں کو دیدہ و دل میں بسایا شوق سے
چاہتوں کو آج بھی امکان میں رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم : کاپی پیسٹ

دسمبر جارہے ہو تم
چلے جاؤ 
مگر جب لوٹ کے آنا تو کچھ نظمیں اٹھا لانا
وہ نظمیں جن میں بد نظمی کا عنصر ہو
وہ نظمیں جو کسی انسان کی تخلیق لگتی ہوں
چلے جاؤ 
مگر دیکھو
جو واپس لوٹ کے آنا
پرانے روگ مت لانا
پرانے روگ کی لت چھوڑ دی میں نے
کسی اجلے زمانے کی کہانی ہی چرا لانا
کہانی
جس کے سب کردار زندہ ہوں
کہانی
جس میں ہر اظہار زندہ ہو 
مرے اطراف پھیلی بے دلی ہے اور اداسی کا سمندر ہے
میں خالی پن کا مارا بے خیالی کا ستایا شخص
میں کچھ لکھنے سے قاصر شخص
انہیں کاپی کروں گا اور تمھارے نام کردوں گا
کہ کاپی پیسٹ میرا مشغلہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم : گریزاں 

زمیں نے کتنے رنگ اوڑھے
وفا کے ،آس کے،چاہت کے،حسرت کے
کئی تنہائیوں کی وسعتیں تاراج کر کے روشنی کے دور میں آئی
جمادات اپنی ہستی کی کئی پرتیں اتار آئے
(لبادہ کہنگی کے میل کو خود میں بسالے تو تعفن اٹھنے لگتا ہے) 
نباتات اپنے حلقوں سے نکل کر غیر جنسوں سے بندھےاور پھر نئی نسلوں،نئی شکلوں، نئی اقسام کو سینچا
تمدن لمحہ لمحہ اپنے ہونے سے نہیں کا مرتکب ٹھہرا
کئی نو خیز کلیاں جبر کی سیجوں پہ پہچیں توتشخص ان کا جو ابھرا وہ رنگ و بُو سے عاری تھا
بہت سے ردّ و کد کے واقعے اور سانحے مچلے
بہت سے دشت روندھے
پتھروں کی پائمالی کی
کئی تہذیب کے چرخے پڑے اور اک نئی تہذیب آ ٹپکی
ہزاروں داستانوں کو ملامت کی سیاہی سے جبینِ ہست پر لکھا 
بہت کچھ اُلٹا پلٹا ہے
بہت کچھ بگڑا سنورا ہے
یہاں ہر شے نے اپنے آپ کو اک بار چھوڑا ہے
مگر میں اپنی فطرت کا ازل سے آج تک شاہد
وہی وحشت، وہی دہشت،وہی مجبوریوں کے غم
وہی وسعت پزیری کی ہوس ناکی
مرے ماحول میں موجود شکلوں کو بدلنے پر 
مناظر کو نئی ترتیب دے کر بھی
نئی تعمیر کے سانچے میں ڈھلنے سے گریزاں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظم:ایک کتھا

تن میں جھانکا
من میں جھانکا 
دیکھا دور از دور
گہرائیوں کے ساگر اُترا
صحراؤں سے چُور
پہنائی میں جست لگائی
صرف تھکاوٹ جاں کو آئی
دیکھی دُھول ہی دُھول
گرجے جا جا حال سُنایا
جو تھا جی میں وہ بتلایا
چین نہ پھر بھی پایا
مسجد مسجد سجدے جھاڑے
ڈھیروں ورد پکائے
ترلے منت کر کر ہارا 
لاکھوں دم کروائے
روگ نہ مٹنے پائے
قشقہ کھینچا سنکھ بجائے
مندر مندر دیپ جلائے
پُوجا پاٹ کا کشٹ اُٹھایا
ہاتھ نہ کچھ بھی آیا
کنگن پہنا کیس بڑھائے
نانک آگے سِیس نوایا
بانی پڑھ پڑھ عرض گزاری
ایک جواب نہ آیا
دھیان گیان کی سُولی چڑھ کے
اپنا آپ گنوایا
تن بھی بگڑا من بھی بگڑا بگڑے آنکھ کے تیور
کیا کیا روگ اُٹھائے جاں نے
بھید نہ پھر بھی پایا
اپنے کھوج کی بھوک مٹانے
جنگل بیلے چھانے
کتنی فکروں کی چوکھٹ ہر دھر آیا کُرلاٹ
ہر شے چھوڑی اک شے چاہی
وہ بھی نہ آئی ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔


Comments