دنیائے ادب میں شبیر احرام کے نام سے جانے پہچانے جانے والے نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر و کالم نگار کا اصل اور مکمل نام "محمد شبیر عالم احرام شاہ حسین نقشبندی مجددی" ہے۔
آپ 10 اپریل 19933 کو روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک معزز ادبی خانوادے میں پیدا ہوئے، یہی وجہ ہے کہ آپ کم عمری سے ہی شاعری کررہے ہیں تاہم باقاعدہ مشاعروں میں شرکت کا آغاز 2012 سے ہوا۔
آپ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری وصول کرنے کے بعد بزنس لاء اور CAA کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان پر گرفت رکھتے ہیں اور زبان دانی اور زبان درسی کے شوق کی وجہ سے بینک کی ملازمت چھوڑ کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ان دنوں کراچی میں انگلش لیکچرار اور کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
آپ کی دو کتابیں "تابندہ" اور "دھواں" زیرِ طبع ہیں جو کہ جلد منظرِ عام پہ آئینگی۔آئیے ملاقات کرتے شبیر احرام سے ان کے کلام سے پانچ غزلیں انتخاب آپ احباب کی نذر
میانِ جنگ مسلسل کمان کھینچ کے رکھ
گہر! ہر ایک شناور کا دھیان کھینچ کے رکھ
تو اپنے آپ میں عالی مقام ہو کہ نہ ہو
بس اپنے سامنے والوں کے کان کھینچ کے رکھ
ہزار زور دکھاویں تجھے یہ برساتیں
مرے عقاب! تو اپنی اڑان کھینچ کے رکھ
ابھی چھلانگ لگائے گا آسماں والا
تو بس زمین پہ کپڑے کا تھان کھینچ کے رکھ
نجانے کونسے لمحہ چلانی پڑجائے
کمان کھینچ کے رکھ میری جان! کھینچ کے رکھ
................................
بے چارے پر پوجا کتنی بھاری ہے
دس بارہ بھگوان ہیں, ایک پُجاری ہے
ان سے دھیمے لہجے میں کیا بات کروں
جن کو اونچا سننے کی بیماری ہے
اک جگنو ہی نکلا ہے ناں رات گئے
اندھیارے پر کیسی وحشت طاری ہے
جن حالات میں جینا دوبھر ہوجائے
ان حالات میں جینا ہی فنکاری ہے
یہ بھی سچ ہے تجھ کو بھول نہ پاؤں گا
یہ بھی سچ ہے میری کوشش جاری ہے
.................................
یونہی بے سبب ہے بتوں کی لمبی قطار سوئے صنم کدہ
دلِ مضطرب تُو خدا خدا کی پکار سوئے صنم کدہ
مرے ہم نفَس! کہ تو بچ گیا جو نکل گیا تھا سوئے حرم
جو تو لوٹ جاتا تو ہو چلا تھا شکار سوئے صنم کدہ
میں ہوں مقتدی, مجھے اقتدا ء میں جبیں جھکانے کا اذن دے
مرے پیشوا…! مرا گَھٹ رہا ہے وقار سوئے صنم کدہ
مجھے اذن دے, میں تری عطا سے بتوں کے چہرے بگاڑ دوں
اے مرے خدا..! تو مرے ہنر کو نکھار سوئے صنم کدہ
کوئی کچھ بھی مانگے بتوں سے میرے خدا نے اس کو عطا کیا...
کئی بار دیکھا یہ معجزہ, کئی بار سوئے صنم کدہ...
....................
آئینے آئینے بتا مجھ کو
اچھا خاصا تھا، کیا ہوا مجھ کو
گردشِ روز و شب حساب تو دے
تو نے کتنا بدل دیا مجھ کو
پہلے عجلت میں کھو دیا اس نے
اور پھر ڈھونڈتا رہا مجھ کو
گر ستاروں کو توڑنا چاہوں
توڑنے دے گا کیا خدا مجھ کو؟
ہائے ہائے میں عشق کر بیٹھا
ہائے کوئی تو روکتا مجھ کو!!
......................
حسبِ معمول چلی, صورتِ مسبوق چلی
صنعتِ چین سے صندوق میں بندوق چلی"
..
اک مسیحا سے لیا عرشِ بریں کا نقشہ
پھر اسی راہ پہ مخلوق کی مخلوق چلی
..
بات بس یہ تھی کہ بندوق نکالی گئی تھی
بس اسی بات پہ بندوق پہ بندوق چلی
..
جس کے درشن کو ترستی تھیں ہزاروں آنکھیں
کیا ہوا؟ آج وہ مورت بھی سرِ سوق چلی؟
..
وائے تقدیر! کہ فرعون کے گھر میں موسٰی؟
آسیہ محل کو, تھامے ہوئے صندوق, چلی...
..
خاک اب اس کو تمیز اچھے برے کی احرام..
عشق نے جیسے کہا ویسے ہی معشوق چلی!!
....................
گلوں سے لیس مری ڈال ڈال کردےگا
خزاں کی رت میں وہ گویا کمال کردےگا
چند ایک سکّوں کے بدلے دعائیں لاتعداد
فقیر آج تجھے مالا مال کردےگا
وہ چپ ہے، سارے سوالات سن رہا ہے ابھی
جواب دے گا تو چہرے سوال کردے گا
زمیں پہ توڑ کے لائے گا سب ستاروں کو
وہ یوں زمیں کو فلک کی مثال کردے گا
عروج پر ہے تو آنکھیں کسی سے چار نہ کر
یہ عشق تیرا مقدر زوال کردے گا
یہ دور ہے کہ جو کوّا چلے گا ہنس کی چال
کوئی اسے بھی پکڑ کر حلال کردے گا
خزاں کی رت میں پرندوں کے پر نہیں جھڑتے
وہ لوٹ آئے گا اک دن، کمال کردے گا
وہ ایک شخص جو احسان کر رہا ہے میاں
ستم کرے گا تو جینا محال کر دے گا
یہ وقت آیا، کہ شاہوں کے پاس وقت نہیں
غریب شاہ کے بچوں کو پال کر دے گا؟
تو اس کے در پہ صدا دے وہ ایسا داتا ہے
تری صدا کو وہ سوزِ بلال کر دے گا
.........................
.........................
Comments
Post a Comment