دم بہ دم ایک ساتھ بیٹھے ہیں
پھر بھی کم ایک ساتھ بیٹھے ہیں،
صرف تصویر رہ گئی باقی
صرف تصویر رہ گئی باقی
جس میں ہم ایک ساتھ بیٹھے ہیں،
کیا تعجب کہ میری تُربت پر
کیا تعجب کہ میری تُربت پر
دو صنم ایک ساتھ بیٹھے ہیں،
تُو یہاں پاؤں دھر نہیں سکتا
تیرے غم ایک ساتھ بیٹھے ہیں
گُفتگو ہے کنائیوں میں حسن
سب عجم ایک ساتھ بیٹھے ہیں،
..................................................
کسی اور کو میں ترے سوا نہیں چاہتا
سو کسی سے تیرا موازنہ نہیں چاہتا
کوئی کُند ذہن قبیل سے ہے مرے خلاف
کہ وہ روشنی کا ہی ارتقا نہیں چاہتا,
تُو حسین ہے سو مغالطے میں نہ خرچ ہو
مرے دوست دل سے تجھے ذرا نہیں چاہتا,
ترا وصل چاہے رگوں میں زہر اُتار دے
ترے ہجر کا کبھی اژدھا نہیں چاہتا,
ابھی دل کو ماضی کی صحبتوں کا ملال ہے
نئے شہر میں کوئی آشنا نہیں چاہتا,
یہ پرند پیڑ چراغ تو مرے ساتھ ہیں
مرا خاندان مری رضا نہیں چاہتا,
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
فاختہ شاخ سے اُڑتے ہوئے گھبرائی تھی
جب پرندوں کے بلکنے کی صدا آئی تھی,
آبلے میری زُباں پر ہیں تو حیرت کیسی
میں نے اک بار تری جھوٹی قسم کھائی تھی,
کب یہ سوچا تھا برابر سے گُزر جائے گا
میری جس شخص سے برسوں کی شناسائی تھی,
اب وہ کہتا ہے کہ زنجیر بنی میرے لیے
اُس کے پیروں میں جو پائل کبھی پہنائی
تھی,
وقت بدلے تو ہر اک رشتہ بدلتا ہے حسنَ
دل میں دیوار کہاں پہلے مرے بھائی تھی,
....................................................................
تمہارے ہجر کا صدقہ اُتار پھینکتا ہے
دلیر شخص ہے خواہش کو مار پھینکتا ہے،
بڑے بڑوں کو ٹھکانے لگا دیا اس نے
یہ عشق لاش بھی صحرا کے پار پھینکتا ہے،
یہ کیسے شخص کے ہاتھوں میں دے دیا خود کو
فلک کی سمت مجھے بار بار پھینکتا ہے،
میں جانتا ہوں محبت کی فصل بوئے گا
زمیں پہ اشک جو زار و قطار پھینکتا ہے،
سمے کی تُند مزاجی نہ پوچھ مجھ سے حسنَ
یہ بے لگام ہر اک شہسوار پھینکتا ہے
....................................................................
ہوا کی نبض اگرچہ ملنگ پکڑے گا
چراغِ عشق بھی لَو کی اُمنگ پکڑے گا ،
عبث
ہے آبلہ پائی کی رنگ آمیزی
یہ عشق خون کے اشکوں سے رنگ پکڑے گا،
یہ عشق خون کے اشکوں سے رنگ پکڑے گا،
میں پھول چُنتا رہا باغ باغ جس کے لیے
خبر کہاں تھی وہ ہاتھوں میں سنگ پکڑے گا،
خبر کہاں تھی وہ ہاتھوں میں سنگ پکڑے گا،
بہ فضلِ عِجز تجھے جذب کی نمو ملے گی
تُو رفتہ رفتہ فقیری کے ڈھنگ پکڑے گا ,
تُو رفتہ رفتہ فقیری کے ڈھنگ پکڑے گا ,
مکین کوئی نہ ہوگا تمہارے بعد یہاں
مکانِ دل پہ پڑا قُفل زنگ پکڑے گا،
مکانِ دل پہ پڑا قُفل زنگ پکڑے گا،
تُو مُبتلا ہے جو آزارِ خود نمائی میں
سو آئنہ بھی تجھے انگ انگ پکڑے گا،
سو آئنہ بھی تجھے انگ انگ پکڑے گا،
وہ عہد ایسے محبت میں لے گا مجھ سے حسن
کہ میرے پاؤں کی زنجیر تنگ پکڑے گا،
کہ میرے پاؤں کی زنجیر تنگ پکڑے گا،
....................................................................
وسوسے چاہے
شب و روز جنم لیتے رہے
ہجر میں پھر بھی مدد ذہن سے کم لیتے رہے،
ہجر میں پھر بھی مدد ذہن سے کم لیتے رہے،
خُشک
لکڑی کی طرح جسم جلایا برسوں
آگ کا کام کسی لمس سے ہم لیتے رہے،
آگ کا کام کسی لمس سے ہم لیتے رہے،
جو بھی آیا ہے محبت میں مُیسر ہم کو
اتنا چاہا کہ اُسے کھو کے ہی دم لیتے رہے،
اتنا چاہا کہ اُسے کھو کے ہی دم لیتے رہے،
ہچکیاں لیتے ہوئے ہم نے پُکارا بھی بہت
اور ترا نام بھی ہم وقتِ عدم لیتے رہے،
اور ترا نام بھی ہم وقتِ عدم لیتے رہے،
اپنے حصے کی بھی خوشیاں یہاں بانٹی ہم نے
اور اس دان کے بدلے میں بھی غم لیتے رہے،
اور اس دان کے بدلے میں بھی غم لیتے رہے،
بیج بویا ہے سدا ہم نے ترے خوابوں کا
فصل اُگانے کے لیے آنکھ سے نم لیتے رہے ،
فصل اُگانے کے لیے آنکھ سے نم لیتے رہے ،
چھن چکی ریت کبھی ہم نے نہیں چھانی میاں
صرف اک نام کا حد درجہ بھرم لیتے رہے،
صرف اک نام کا حد درجہ بھرم لیتے رہے،
ایسے زخموں پہ نمک رکھتا تھا وہ دستِ حنا
ہم بصد شوق حسن لطفِ ستم لیتے رہے،
....................................................................
ہم بصد شوق حسن لطفِ ستم لیتے رہے،
....................................................................
جو شخص کارِ محبت میں مُبتلا نہیں ہے
ہمارے شہر میں اس کے لیے جگہ نہیں ہے،
ہماری آنکھوں پہ عینک رہی تکلف کی
ہر ایک بار محبت میں یوں لگا، نہیں ہے،
تمہارے سر سے بھلے ہاتھ اُٹھا لیا ہم نے
مگر تمہارے لیے کوئی بد دعا نہیں ہے،
پھر اُس نے وصل کے لمحوں پہ روشنی ڈالی
ہمیں گماں تھا دیا جیسے دیکھتا نہیں ہے،
نجانے کیسی ہے عُجلت بچھڑنے والے کو
یہاں جدائی مگر اپنی طے شدہ نہیں ہے،
دریچہ کھول کے دیکھا تو چونک اُٹھا میں حسن
مجھے لگا تھا ہوا ہے مگر ہوا نہیں ہے،
۔۔۔ عطا ا لحسن ۔۔۔
ہمارے شہر میں اس کے لیے جگہ نہیں ہے،
ہماری آنکھوں پہ عینک رہی تکلف کی
ہر ایک بار محبت میں یوں لگا، نہیں ہے،
تمہارے سر سے بھلے ہاتھ اُٹھا لیا ہم نے
مگر تمہارے لیے کوئی بد دعا نہیں ہے،
پھر اُس نے وصل کے لمحوں پہ روشنی ڈالی
ہمیں گماں تھا دیا جیسے دیکھتا نہیں ہے،
نجانے کیسی ہے عُجلت بچھڑنے والے کو
یہاں جدائی مگر اپنی طے شدہ نہیں ہے،
دریچہ کھول کے دیکھا تو چونک اُٹھا میں حسن
مجھے لگا تھا ہوا ہے مگر ہوا نہیں ہے،
۔۔۔ عطا ا لحسن ۔۔۔
....................................................................
عطاالحسن
Comments
Post a Comment